Home Blog
https://go.fiverr.com/visit/?bta=1045241&brand=fp
https://www.cpmrevenuegate.com/rwruj72x?key=92c6eec4a4fc5834404f94910c72d838
https://www.cpmrevenuegate.com/jx7m2mjzn?key=bb5a22df177204e9abf799aea6ad0dcf
https://www.cpmrevenuegate.com/sjj8kpha9t?key=e7d7215c68765ffd71d1fbf98a9caa50

حدیث: روحانی ترقی اور روزمرہ کی عبادت کا راستہ

0

حدیث: روحانی ترقی اور روزمرہ کی عبادت کا راستہ

دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے حدیث روحانیت کو فروغ دینے اور ایک زندگی بھر devotion اور عبادت میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن مجید ایمان کی بنیاد فراہم کرتا ہے، لیکن حدیث—یعنی نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے اقوال، اعمال، اور توثیق—عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ کیسے ایمان کو روزمرہ کی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ حدیث کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کے ذریعے مسلمان نہ صرف اسلامی تعلیمات سیکھتے ہیں بلکہ اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں اور اپنی روحانی حالت کو بہتر بناتے ہیں۔

روحانیت کو سمجھنے کا ذریعہ: حدیث

اسلامی روحانیت، جسے تزکیہ (روح کی پاکیزگی) کہا جاتا ہے، خود آگاہی، اخلاص، اور اللہ کے ساتھ گہرا تعلق پر مبنی ہے۔ حدیث اس روحانی پاکیزگی کو حاصل کرنے کے لئے واضح ہدایات فراہم کرتی ہے۔ یہ مسلمانوں کو سکھاتی ہے کہ کیسے اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں، اندرونی سکون حاصل کریں، اور اعلیٰ اخلاقی کردار پیدا کریں۔

مثال کے طور پر، نبی کریم ﷺ نے ایک مشہور حدیث میں فرمایا:

“خبردار! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح ہوگا، اور اگر وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوگا۔ خبردار! وہ دل ہے۔”
(صحیح بخاری 52)

یہ حدیث دل کی روحانی پاکیزگی کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ اگر دل صاف ہو—کینہ، غرور، اور انا سے پاک ہو—تو انسان کی پوری شخصیت میں نیکی کا عکس نظر آتا ہے۔ دل کی پاکیزگی پر توجہ مرکوز کرنے سے مسلمان روحانی ترقی کے راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں۔

شکر اور صبر کو فروغ دینا: حدیث کے ذریعے

نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی ایک اہم تعلیم شکر اور صبر کی اہمیت ہے۔ زندگی مشکلات اور نعمتوں سے بھری ہوتی ہے، اور حدیث ان حالات میں کس طرح مضبوطی سے قائم رہنا ہے، اس پر قیمتی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“مومن کا معاملہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ اس کا ہر حال خیر و بھلائی پر مبنی ہے، اور یہ کیفیت صرف مومن کے لیے مخصوص ہے۔ جب اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہے، اور جب اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔”
(صحیح مسلم 2999)

یہ حدیث سکھاتی ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، ایک سچا مومن ہمیشہ روحانی ترقی کی حالت میں ہوتا ہے—خوشی کے لمحات میں شکر کے ذریعے اور مشکلات کے دوران صبر کے ذریعے۔ یہ توازن اسلامی روحانیت کی بنیاد بناتا ہے، اور مسلمانوں کو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ زندگی کا ہر تجربہ روحانی ترقی کا موقع ہے۔

روزمرہ کی عبادات کا کردار

حدیث مسلمانوں کو روزمرہ کی عبادات جیسے نماز (سلاۃ)، ذکر (اللہ کا ذکر)، اور دعا (التجا) کو بہتر بنانے کے بارے میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہ عبادات نہ صرف فرائض ہیں بلکہ اللہ کے ساتھ مسلسل تعلق رکھنے کے طاقتور ذرائع بھی ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جسے اگر تم کرو، تو تم ان لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ گے جو تم سے آگے بڑھ چکے ہیں؟ اللہ کا کثرت سے ذکر کرو۔”
(سنن ترمذی 3375)

یہ حدیث مسلمانوں کو مستقل طور پر اللہ کو یاد کرنے کی ترغیب دیتی ہے، چاہے وہ روزمرہ کے معمولات میں ہو یا خصوصی لمحوں میں۔ ذکر نہ صرف دل کو سکون بخشتا ہے بلکہ ایمان کو بھی مضبوط کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں اللہ کے ساتھ تعلق مزید گہرا ہو جاتا ہے۔

اچھے اخلاقی اوصاف کا فروغ: حدیث کے ذریعے

نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا ایک عظیم ورثہ ان کا مثالی کردار ہے، جسے اسوہ حسنہ کہا جاتا ہے۔ حدیث مسلمانوں کو سکھاتی ہے کہ کیسے صداقت، عاجزی، اور مہربانی جیسے اچھے اخلاقی اوصاف کو فروغ دینا ہے۔ یہ صفات اسلامی روحانیت کے دل میں ہیں اور ایمان کی اصل عکاسی کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ شخص ہے جو دوسروں کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو، اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ ہے جو مسلمان کو خوش کر دے۔

ایک چالاک لومڑی اور بےوقوف بکری

0

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گھنا جنگل تھا جس میں بہت سارے جانور رہتے تھے۔ اس جنگل میں ایک چالاک لومڑی اور ایک بکری بھی رہتی تھی۔ لومڑی ہمیشہ دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتی تھی تاکہ اسے مفت کا کھانا مل جائے۔

ایک دن لومڑی جنگل میں گھوم رہی تھی کہ اچانک ایک گہری کنویں میں گر گئی۔ کنویں کے کنارے پر کھڑے ہو کر اس نے بہت چیخ و پکار کی، لیکن کوئی بھی جانور اس کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ لومڑی کو فکر ہونے لگی کہ وہ کیسے باہر نکلے گی۔

اتنے میں ایک بکری وہاں سے گزری۔ بکری نے کنویں کے اندر جھانکا اور لومڑی کو دیکھا۔ “تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” بکری نے حیران ہو کر پوچھا۔

لومڑی نے چالاکی سے جواب دیا، “اوہ، میں تو یہاں تازہ اور ٹھنڈا پانی پینے آئی تھی۔ یہ پانی بہت مزیدار ہے! تم بھی اندر آؤ اور پیو۔”

بکری نے بغیر سوچے سمجھے لومڑی کی بات پر یقین کر لیا اور چھلانگ لگا کر کنویں میں کود گئی۔ جیسے ہی بکری اندر آئی، لومڑی نے فوراً اس کی پیٹھ پر چڑھ کر باہر چھلانگ لگا دی۔

لومڑی نے باہر نکلتے ہی بکری کی طرف دیکھ کر کہا، “بکری! تمہیں کنویں میں آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ یہاں سے کیسے نکلو گی۔”

بکری کو بہت افسوس ہوا کہ اس نے لومڑی کی بات پر بھروسہ کیا تھا۔


سبق:

ہمیں کسی کی بات پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہی عقل مندی ہے۔

شیر اور چوہا

0

یک دن، ایک جنگل میں ایک بڑا شیر سو رہا تھا۔ اُس کا جسم بہت مضبوط اور دانت بہت نوکیلے تھے۔ شیر جنگل کا بادشاہ تھا اور تمام جانور اُس سے ڈرتے تھے۔ جب شیر سو رہا تھا، ایک چھوٹا چوہا وہاں سے گزرا۔ چوہے نے شیر کو دیکھا اور شرارت سے اُس کے جسم پر دوڑنے لگا۔

شیر کی نیند خراب ہوئی اور اُس نے اپنی بڑی آنکھیں کھولیں۔ چوہا فوراً خوفزدہ ہو گیا اور شیر کے پنجے میں پھنس گیا۔ شیر نے چوہے کو اپنی بڑی طاقتور پنجوں میں اُٹھایا اور بولا، “تمہاری یہ جرات کیسے ہوئی کہ تم میری نیند خراب کرو؟ میں تمہیں ابھی کھا جاؤں گا!”

چوہا بہت ڈر گیا لیکن اُس نے ہمت سے کہا، “مہربانی کر کے مجھے چھوڑ دو، شیر بھائی! میں ایک چھوٹا سا چوہا ہوں، آپ مجھے کھا کر کیا حاصل کریں گے؟ اگر آپ مجھے چھوڑ دیں گے، تو میں ایک دن آپ کی مدد ضرور کروں گا!”

شیر ہنس پڑا اور بولا، “تم جیسے چھوٹے چوہے میری مدد کیسے کر سکتے ہو؟” لیکن شیر کا دل نرم ہو گیا اور اُس نے چوہے کو چھوڑ دیا۔

کچھ دنوں بعد، شیر ایک شکاری کے جال میں پھنس گیا۔ وہ جتنا بھی زور لگاتا، جال سے باہر نہیں نکل پاتا۔ وہ گرجنے لگا لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔ اچانک چوہا وہاں پہنچا۔ اُس نے شیر کی آواز سنی تھی اور فوراً وہاں آیا۔ چوہے نے اپنے تیز دانتوں سے جال کو کاٹنا شروع کیا اور جلد ہی شیر آزاد ہو گیا۔

شیر حیران ہوا اور شکر گزار ہو کر بولا، “آج تم نے میری جان بچائی! میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ تم میری مدد کر سکتے ہو۔”

چوہا مسکرا کر بولا، “چھوٹے جانور بھی بڑے کام کر سکتے ہیں، شیر بھائی!”

اس کے بعد شیر اور چوہا بہترین دوست بن گئے، اور شیر نے سیکھا کہ کسی کو چھوٹا یا کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔

سبق: کبھی کسی کو کمزور مت سمجھو، ہر کوئی کسی نہ کسی وقت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔


یہ کہانی بچوں کو دوستی، رحم دلی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا سبق سکھاتی ہے۔

bill gates

0

ayat ul kursi

0

60 Inspiring Quotes About Nature

0

Mother Nature is the ultimate inspiration. When you’re feeling sluggish, simply walking outside and getting fresh air can do wonders for your mood and outlook. Often, nature’s beauty can take your breath (and words) away. In those moments of awe, we like to turn to some of our favorite nature quotes that sum up how we’re feeling. These inspirational nature quotes will make you want to go on a hike, sit by the lake, or just step outside to your yard. Plus, short nature quotes with simple and concise language make great captions for Instagram. When words escape you, turn to some of the best literary minds for these beautiful nature quotes. Now get outside and get inspired!

 

 

 

“Nature is not a place to visit, it is home.” –Gary Snyder

 

“In every walk with nature one receives far more than he seeks.” –John Muir

 

“What is the good of your stars and trees, your sunrise and the wind, if they do not enter into our daily lives?” –E.M. Forster

 

“The tree which moves some to tears of joy is in the eyes of others only a green thing which stands in the way. Some see nature all ridicule and deformity, and by these I shall not regulate my propositions. And some see no nature at all. But to the eyes of the man of imagination, nature is imagination itself.” –William Blake

 

“Some old-fashioned things like fresh air and sunshine are hard to beat.” –Laura Ingalls Wilder

 

“My wish is to stay always like this, living quietly in a corner of nature.” –Claude Monet

 

“For a time, I rest in the grace of the world, and am free.” –Wendell Berry

 

“Every morning was a cheerful invitation to make my life of equal simplicity, and I may say innocence, with Nature herself.” –Henry David Thoreau

 

“Fresh air is as good for the mind as for the body. Nature always seems trying to talk to us as if she had some great secret to tell. And so she has.” –John Lubbock

 

 

 

“Nature is pleased with simplicity.” –Sir Isaac Newton

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

22 Best English quotes

0

Your peace is more important than driving yourself crazy trying to understand why something happened the way it did. let it go.

There’s a difference between being liked and being valued.
a lot of people like you not many value you

 

never trust your fears, they don’t know your strength

 

 

 

if you want to be happy then never expect anything from anyone.

when you have money in your hand, only you forget who you are, but when you do not have any money in your hand, th whole world forgts who you are.its life. – bill gates

when you can’t control what’s happening, challenge yourself to control the way you respond to what’s happening. that’s where your power is.

be yourself always. don’t change so people will like you. the right people will love the real you.

not every sorry deserves an its okay in return.

The true sign of intelligence in not knowledge but imagination

albert einstein

22 Urdu Best Quotes

0

 

یہ محبت کے حادثے اکثر دلوں کو توڑ دیتے ہیں تم منزل کی بات کرتے ہو لوگ راہوں میں چھوڑ دیتے ہیں

 

کچھ دل کی مجبوریاں تھیں کچھ قسمت کے مارے تھے ساتھ وہ بھی چھوڑ گئے جو جان سے پیارے تھے

 

گزار دیتا ہو ہر موسم مسکراتے ہوے ایسا بھی نہیں کے بارشوں میں تو یاد آیا نہیں

مجھے صبر کرنے کی دیر ہے تم اپنا مقام کھو دو گے

اب نہیں رہا انتظار کسی کا جو ہوں خود کہ لیے ہوں

علاقہ غیر کو سیراب کر رہی تھی وہ نہر رسیلے ہونٹ کہیں اور خشک ہو رہے تھے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

!بعد میں

0

آسکر ہر روز اپنے طریقے سے سب کچھ کیا کرتا تھا۔ آسکر جو چاہتا کھاتا، جب چاہتا کھیل کھیلتا اور جب چاہتا سوجاتا۔ اگر اس کی ماں اسے اپنی صفائی کرنے یا رات کے کھانے کے لیے نیچے آنے کو کہتی، تو وہ چیختا کہ ‘بعد میں!’ اور جو کچھ وہ کر رہا ہوتا اسے جاری رکھتا۔

ایک دن، آسکر پارک میں اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد اسکول سے دیر سے گھر آیا۔

میں گھر ہوں!’ اس نے دالان میں جمائی لی ۔ ساری دوپہر کھیل کر وہ تھک گیا تھا۔

‘ہیلو، ہنی!’ آسکر کی ماں نے واپس جواب دیا۔

آسکر اگلا کام کرنے چلا گیا جو اس کی روزانہ کی فہرست میں تھا۔ اس نے الماری سے کافی اسنیکس لیے اور پھر سورج غروب ہونے تک ویڈیو گیمز کھیلتا رہا۔ اس کے اردگرد کمرہ انتہائی تاریک ہونے لگا۔ صرف ٹی وی سے روشنی آ رہی تھی ، جس سے ایک آواز پیدا ہو رہی تھی۔

‘اوہ، اوہو!’ آسکر نے کنٹرولر کو صوفے پر مارا۔ اس نے مٹھی بھر کرسپس اٹھائے ۔ ان میں سے نصف اس کے منہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

‘مجھے یہاں ایک موقع دو!’ اس نے کھیل میں اپنے دوستوں سے کہا۔ انہوں نے اونچی آواز میں جواب دیا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں کچن سے چلائی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

‘دوستو یہاں آؤ!’ وہ اسکرین پر چلایا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں نے دہرایا۔

اس بار وہ زور سے چلائی تھی، اور وہ تھوڑی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔

‘ہاں؟!’ آسکر نے اپنا ہیڈسیٹ اتار دیا۔

‘رات کا کھانا تیار ہے!’

آسکر نے آنکھیں گھمائیں جب اس نے اپنا ہیڈسیٹ دوبارہ پہن لیا اور خود کو صوفے پر  برجمان کر لیا۔

‘بعد میں!’ اس نے واپس جواب دیا ۔

بعد میں ، اور آسکر کی ماں اس کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ اس کے کھانے کے لیے کھانے کی پلیٹ لے گئی۔ وہ اچانک دروازے کے اندر ہی رک گئی۔

‘آسکر، کیا تم اس گندگی کو صاف کر سکتے ہو؟’

آسکر نے جتنا زیادہ کھایا تھا، اتنے ہی زیادہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے ارد گرد بکھرے ہوئے تھے۔ وہ صوفے پر جمع  شدہ بچ جانے والے ریپرز اور خالی پیکجوں سے گھرا ہوا تھا۔

آسکر نے اپنی ماں کو دیکھا۔

‘بعد میں!’ وہ ویڈیو گیم کے شور پر چیخا۔

اس کی ماں نے ایک آہ بھری جب وہ گندگی صاف کرنے لگی۔

اگلے دن، آسکر ناراض اور مایوس گھر آیا کیونکہ اسے اسکول میں امتحان مشکل محسوس ہوا تھا ۔ اس نے اپنے آپ کو  لطف اندوز کرنے کے طور پر کچھ کیک کھانے کا فیصلہ کیا۔

آسکر جیسے ہی پہلا نوالہ لینے ہی والا تھا کہ اس کی ماں نے اسے دوسرے کمرے سے بلایا۔ اس نے آہ بھری، اپنا کیک نیچے رکھا اور اپنی ماں سے بات کرنے کے لیے چلا گیا۔

وہ اکھڑا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس کے بازو بندھے ہوئے تھے۔ آسکر جو لفافہ ابھی ابھی گھر لایا تھا وہ پھٹا ہوا تھا، اور اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔

‘آسکر، ہمیں اسکول میں ہونے والی کسی چیز کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔’

اس نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

آسکر جھپٹا مار کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔

آسکر، میں نے تمہاری استانی کا یہ خط پڑھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ اپنے ٹیسٹوں میں دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے دوست کے کام کی نقل کر رہے ہیں۔

آسکر کو اچانک غصہ آگیا۔ اس نے صرف اس لیے نقل کیا تھا کہ اسے اس میں سے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔

‘ خیر ، وہ مجھے اس کی نقل کرنے دیتا ہے!’ اس نے غصے کے ساتھ ایک آہ بھری اور بازو جوڑ لیے۔

اس کی ماں نے بھی ایک آہ بھری لیکن پھر اسے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔

‘ کوئی بات نہیں ، آسکر. دیکھو، اگر آپ جدوجہد کر رہے ہیں، میں مدد کر سکتی ہوں۔ چلو آج رات شروع کرتے ہیں، ٹھیک ہے؟

آسکر تھکا ہوا اور تنگ آچکا تھا۔ سب سے پہلے، اس کی استانی نے اس کے بارے میں اس کی ماں کو بتایا اور پھر اس کی ماں نے اس کی استانی کا ساتھ دیا! وہ اس معاملے سے دور کیوں نہیں رہ سکتی تھی؟

وہ چھلانگ لگا کر اپنے قدموں پر آگیا۔ اس کے ہاتھ پہلوؤں سے جکڑے ہوئے تھے۔

‘بعد میں!’ اس نے چیخ کر کہا۔ وہ بھاگتا ہوا اپنے بیڈ روم میں چلا گیا۔

اس رات کے بعد، آسکر بڑبڑایا جیسا کہ اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر گرایا اور اپنے بستر پر پہلو پر پہلو تبدیل کر رہا تھا ۔ وہ سو نہ سکا۔

ہر ایک کو ہر وقت سب کچھ کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی تھی؟ وہ اسے وہ کرنے کیوں نہیں دیتے جو وہ چاہتا تھا؟ اس کی خواہش تھی کہ سب اس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں ۔ اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ مستقبل میں اپنے لیے سب کچھ کرے گا، چاہے اس کا مطلب امتحان میں دھوکہ دہی ہو۔

اس رات آسکر نے خواب دیکھا کہ وہ اپنا پسندیدہ اسنیکس کھاتے اور دن بھر اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ پارک میں کھیلتا رہا۔

اگلی صبح آسکر گہری نیند سے چونک گیا۔ اس کی کھڑکی کے باہر ایک گرج چمک اٹھی۔ بارش شیشے پر زور سے پڑی۔

‘ماں؟’ آسکر نے خاموش گھر  میں پکارا۔

خاموشی نے اسے جواب دیا۔

وہ نیچے کی طرف بھاگا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ آسکر نے بس کندھے اچکا دیے، کبھی کبھی اس کی ماں کو آخری لمحات میں کام پر بلایا جاتا تھا۔ وہ عام طور پر اسے بتانے کے لیے ایک نوٹ چھوڑ دیتی تھی کہ اس نے اس کا پسندیدہ ناشتہ بنایا ہے اور اسے لپیٹ کر کاؤنٹر پر رکھ دیا ہے۔ اس نے ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی نوٹ یا ناشتہ نظر نہیں آیا۔

‘اوہ اچھا،’ آسکر نے اپنے آپ سے بلند آواز میں کہا۔ اس نے ناشتے کے لیے اپنے پسندیدہ اسنیکس پکڑے۔

آسکر بدحواسی کے ساتھ اسکول چلا گیا، یہ یاد کرتے ہوئے کہ اس دن اسے ایک اور امتحان کا سامنا کرنا  ہو گا۔ جب وہ کلاس میں پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ وہ جس دوست سے عام طور پر نقل کرتا تھا وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے آسکر کو نہیں بتایا تھا کہ وہ وہاں نہیں ہوگا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے اساتذہ کو بھی نہیں بتایا تھا۔ جب آسکر نے ان سے پوچھا تو وہ بالکل بے خبر تھے۔

آسکر بھی اس دن اسکول کے بعد گھر آنے سے زیادہ خوش نہیں تھا۔ امتحان کی وجہ سے وہ ناخوش تھا۔ آسکر کو بارش سے نفرت تھی، لیکن ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ رکنے والی ہے۔ بارش کا مطلب تھا کہ وہ باہر رہنے اور کھیلنے کے قابل نہیں تھا، لیکن جس دوست کے ساتھ وہ گھومنا چاہتا تھا وہ بھی غائب ہو گیا تھا۔ تو ویسے بھی اس کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہیں تھا۔

‘ٹھیک ہے، کم از کم میں اب گھر ہوں،’ اس نے سوچا۔

‘میں واپس آ گیا ہوں!’ اس نے خالی گھر میں اعلان کیا۔

اس کی ماں ابھی تک کہیں نہیں ملی تھی۔

آسکر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ یہ عجیب تھا۔ عام طور پر، اگر اس کی والدہ زیادہ دیر تک گھر سے دور رہتی تو وہ اس کی دیکھ بھال کے لئے کسی اور کا انتظام کیا کرتی تھی۔

اس نے کندھے اُچکائے۔

‘میں بعد میں اس کی فکر کروں گا،’ اس نے خود سے کہا۔

اس نے اپنا پسندیدہ ویڈیو گیم کھیلنا شروع کیا۔ اس نے بہت سارے اسنیکس کھائے، رات کا کھانا چھوڑ دیا اوروہ اس رات دیر سے سویا۔

صبح ہو گئی۔ آندھی اور بارش نے آسکر کی کھڑکی پر زور سے دستک دی اور ٹکرائی۔

‘ہفتہ کا دن ہے!’ آسکر ایک پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ اٹھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ اور اس کی ماں کئی ہفتوں سے ایک دن باہر جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا لیکن جب وہاں کوئی نہیں تھا تو رک گیا۔ آخرکار اسے فکر ہونے لگی۔ اس دن آسکر نے ہر وہ جگہ دیکھی جہاں اس کی ماں جا سکتی تھی۔ اس نے اپنے جاننے  والوں سب کو بلایا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اس نے شہر کے ارد گرد پوچھا، لیکن بارش کی وجہ سے شاید ہی کوئی آس پاس تھا۔ آسکر جن لوگوں کو جانتا تھا اور ڈھونڈ سکتا تھا، ان میں سے کسی نے اس کی ماں کو نہیں دیکھا تھا۔

آسکر مایوسی محسوس کرتے ہوئے گھر واپس آیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ رو رہا ہے جب وہ باورچی خانے میں تمام گندگی کے نیچے کھانے کے لئے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ گھر تباہی کا شکار تھا۔ آسکر کو اتنے کوڑے کے نیچے اپنے پسندیدہ کھلونے بھی نہیں مل سکے۔

آسکر اس رات سونے کے لیے بہت پریشان تھا۔ اس نے کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھا۔

‘میں معافی چاہتا ہوں. مجھے بہت افسوس ہے،’ اس نے بلند آواز میں کہا۔ ‘میرا مطلب ہر اس شخص کے لیے نہیں تھا جو میری پرواہ کرتا ہے کہ وہ چلا جائے۔ میں ایک وقفہ چاہتا تھا، لیکن اس طرح نہیں! میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ معمول پر آجائے۔ براہ کرم، براہ کرم، میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ ایسا ہو۔

اگلی صبح، آسکر کے سوئے ہوئے چہرے پر چمکتا ہوا سورج چمکا۔ وہ تازگی محسوس کرتے ہوئے اٹھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے سب کچھ بھول گیا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا، ایک وقت میں دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا ،  گرنے سے بچنےکی کوشش کرتے ہوئے جب اس نے اپنی ماں کو پکارا۔

اسے دیکھتے ہی وہ لینڈنگ پر رک گیا۔ وہ مسکرائی جب وہ اسے گلے لگانے کے لیے بھاگا۔

‘ آپ واپس آگئی ہو! آپ واپس آگئی ہو!’ اس نے رو کر پکارا۔

وہ ہنسی اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ ‘کیا تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے، جان؟’

اس نے اپنا سر ہلایا جب اس نے اسے  زور سے گلے لگایا اور وہ زور سے ہنسی،

آسکر نے اس ہنسی کو بہت یاد کیا تھا۔

‘اب چلو۔ جمعہ ہے، اسکول کے لیے تیار ہو جاؤ ورنہ پھر دیر ہو جائے گی۔’

آسکر نے اس کے گال پر بوسہ دیا۔

‘بعد میں!’ اس کی زبان کی نوک پر تھا۔ یہ اتنی پرانی عادت تھی۔ تاہم، اس نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا، ‘ٹھیک ہے! میں ابھی تیار ہوتا ہوں۔

Best Deep Quotes in Urdu

0

 

جو لوگ رب کو پانا چاہتے ہیں وہ اپنی خواہشات کو چھوڑ دیتے ہیں

اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمر رواں

کاش کوئی ایسی ہوا چلے کون کس کا ہے پتہ چلے

 

لوگ کہتے ہیں کہ پتھر دل کبھی رویا نہیں کرتے

اُنہیں کیا خبر پانی کے چشمے پتھروں سے ہی نکلا کرتے ہیں

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر،

ہنس کے کہنے لگی اور آپ کو آتا کیا ہے.

 

 

واللہ کیا منظر ہوگا تم، تمہارے آنسو، اور میرے میت